اسلامی رہنماؤں کے منہ پر طمانچہ
محمد بن عروہ یمن کے گورنر کی حیثیت سے یمن کے شہر میں داخل ہوا۔ لوگ ان کے استقبال کے لیے جمع تھے اور ایک لمبی تقریر کی توقع کر رہے تھے۔ اس نے صرف ایک جملہ بولا۔ ’’اے لوگو یہ میری سواری ہے اور یہ میرا ہے، اگر میں اس سے
زیادہ لے جاؤں تو مجھے چور
سمجھو۔‘‘ اس نے اپنی بات ختم کی۔
اس نے یمن کو
ترقی اور خوشحالی کا نمونہ بنایا اور جب وہ یمن سے نکل رہا تھا تو لوگ اس کے لیے
رو رہے تھے۔ بہت بڑا ہجوم تھا اور لوگ ایک لمبی تقریر کے منتظر تھے لیکن محمد بن
عروہ نے صرف ایک جملہ بولا۔ اے لوگو یہ میری گاڑی دیکھ رہے ہیں، یہ میری تھی اور
اب میں واپس جا رہا ہوں۔ میرے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
پیارے
پاکستانیوں ذرا اپنے ججوں، وزرائے اعظم، سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور جنرلوں کے
داخلے اور اخراج کو دیکھیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں